Alfia alima

Add To collaction

محبت کی دیوانگی

محبت کی دیوانگی قسط نمبر 10

وہ پہنچے تو تصبیہا نے کھانا لگا دیا اور خود صحن میں چلی گئی ۔۔۔۔ جب وہ کافی دیر نہیں آئی تو موصب صحن میں گیا تو وہ کرسی پر گھٹنوں میں منہ رکھ کر بیٹھی کچھ سوچ رہی تھی ۔۔۔۔)

تصبیہا ۔۔۔۔یہاں کیا کررہی ہو ۔کھانا نہیں کھارہیں ؟؟

(اس کی آواز سن کر تصبیہا نے چہرا اٹھایا اس کی انکھیں لال ہورہی تھیں ۔۔۔)

تم رہ رہی ہو؟؟؟ کیوں کیا ہوا ؟؟؟ میں نے تو کچھ کہا بھی نہیں ہے ابھی۔۔۔۔(موصب کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہہ اسے ہوا کیا ہے )

موصب وہ کتنی تکلیف میں ہوگا ۔۔۔۔۔(تصبیہا کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے )

تم حسن کی بات کررہی ہو؟(موصب اسے پہلی مرتبہ اسے اداس اور روتا ہوا دیکھ رہا تھا )

موصب کہ سوال پر اس نے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔۔

تصبیہا یہ سب اللہ کی مرضی ہے ہم کچھ نہیں کرسکتے ۔ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ہم صرف دوا دے سکتے ہیں اس میں شفا دینا اللہ کا کام ہے اور پھر موت تو برحق ہے نا ۔ کچھ جلدی اس دنیا سے چلے جاتے ہیں ،کچھ دیر سے مگر جانا تو ہے نا۔۔۔۔(وہ پہلی بار اس طرح نرمی سے اس کے ساتھ بات کر رہا تھا )

چلو کھانا کھالو ڈھنڈا ہورہا ہے ۔۔۔

مجھے بھوک نہیں لگ رہی ،تم کھا لو۔۔۔(وہ ابھی بھی دکھی تھی)

تم چل رہی ہو یا اٹھا کر لے کرجاوں (موصب نے تیوری چڑھا کر کہا)

تصبیہا چپ چاپ اٹھی اور اندر چلی گئی )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تصبیا ظہر کی نماز پڑھ کر کیفے ٹیریا میں آئی تو سب وہیں بیٹھے باتیں اور ہنسی مزاق کررہے تھے ۔ وہ وہاں آکر بیٹھی توسعد بولا )

یار تصبیہا کی گڈویل دن با دن بڑھتی جارہی ہے ہوسپیٹل میں تم لوگوں نے نوٹ کیا ۔۔۔(سعد نے اسے تنگ کرنا چاہا ۔موصب بھی وہیں بیٹھا تھا ۔۔۔تصبیہا پہلے تو مسکرائی اور بولی ) اللہ تو سب کو عزت دینا چاہتا ہے۔!

وہ ہمیں اعزاز کی اس مسند پہ بٹهانا چاہتا ہے جس کے ہم لائق تو نہیں ہوتے... لیکن وہ ہماری اوقات نہیں اپنی عطا دیکهتا ہے.۔۔
اور انسان ذلت کی راہ پہ ہمیشہ چلتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بهی کہ اس راہ میں سوائے رسوائی اور خالی دامن کے کچه ہاتھ نہیں آنا لیکن نفس کی انگلی تهامے, شیطان کی راہ پہ چلتے انسان پهر ایسی بهول بهلیوں میں کهو جاتا ہے کہ جس سے واپسی کے تمام راستے کهو جاتے ہیں... اور مسدود راہوں پہ پهر اللہ کی یاد ستانے لگتی ہے...
ہمیں اللہ تب ہی یاد کیوں آتا ہے جب گناہوں کی ذلت سارے وجود کا احاطہ کر لیتی ہے... جب نفس کی دهول سے بند آنکهیں دیکهنے سے قاصر ہو جاتی ہیں... جب مردہ روح میں ظلمت کے اندهیرے اپنے پنجے گاڑ لیتے ہیں...
یہ بهی نعمت ہے...اک نعمت... اللہ کا اس وقت یاد آ جانا... کتنے ہی اس لذت یاد الہی سے نا آشنا اس دنیا سے چلے گئے...
اور اللہ چاہے ذلت کی پستیوں میں ہی کیوں نہ یاد آئے اسے یاد کر لینا...
اللہ کو کیچڑ میں لپٹا کنول بهی قبول ہے.. وہ ہاتھ بڑها کہ اپنی محبت سے, بہت چاہت سے اس کیچڑ کو دهو ڈالے گا... اسےکبهی بهولنا مت... اسے بس اخلاص اور ندامت کا اک چوٹا سا آنسو منانے کے لیے کافی ہے۔۔۔۔

(سب اس کی بات کو سن کر اپنا تجزیہ خود کررہے تھے ۔۔۔ہمیں بھی اپنا تجزیہ کرلینا چاہیے کہ ہم کہا کھڑے ہیں ۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر امرجنسی ۔۔۔۔۔(ایک واڈ بوہے نے آکر موصب کو بتایا تو وہ فور بھاگا ، )

جہانگیر تم ؟ کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے؟(موصب جہانگیر کو دیکھ کر حیران ہوا کہ یہاں کیا کر رہا ہے)

موصب دادو کی طبیت اچانک خراب ہوگئی ہے تو دیکھ جلدی۔۔(جہانگیر نے اپنی دادی کا بتایا ۔وہ بہت پریشان تھا ۔جہانگیر اپنی دادی سے بہت پیار کرتا تھا)

میں دیکھتا ہو تو پریشان نہ ہو۔۔۔(موصب نے اسے دلاسہ دیا)

تھوڑی دیر باہر آیا اور جہانگیر سے بولا )

دو دن میں دادو کو یہیں رکھو گا صرف اپنی سیٹیسفیکشن کہ لیے ۔۔۔(موصب نے اسے پروفیشنل وے میں کہا)

سب ٹھیک تو ہے نہ ؟(اس نے پریشانی سے کہا)

ہاں ہاں بس کچھ ٹیسٹ کروں گا ۔۔۔(موصب نے اسے تصلی دی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سر آپ باہر جاہیں مجھے ان کی ای سی جی کرنی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(نرس اسے کب سے کہہ رہی تھی مگر وہ سن ہی نہیں رہا تھا بس اپنی دادی کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھا تھا ۔وہ انھین ایک پل کہ لیے بھی اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ جب وہ بار بار بول کر اسے تنگ کررہی تھی تو وہ اکتا کر بولا )
آپ کو جو کرنا ہے آپ کریں میں آپ کو ڈسٹرب نہیں کرو گا ۔۔

سر آپ سمجھ کیوں نہیں رہے ہیں ۔۔۔۔آپ یہاں نہیں رکھ سکتے۔۔۔(نرس نے اسے سمجھانے کی کوشیش کی)

تصبیہا جو وہاں آئی اسے اس نرس سے کام تھا ۔۔۔۔ مگر وہاں آکر اس نے دیکھا کہ وہ نرس کسی کو بار بار ایک ہی بات کہہ رہی ہے مگر وہ نہیں سن رہا ۔تصبیہا کو غصہ آیا ۔وہ وہاں گئی اور بولی)

کیا ہو رہا ہے یہاں ؟؟ جہانگیر کی پیٹھ تھی اس کی طرف ۔اس نے نرس سے پوچھا ۔تو وہ بولی)

میؐں کب سے انہیں سمجھا رہی ہو کہ تھوڑی دیر کہ لیے باہر چلے جاہیں مگر یہ سن ہی نہیں رہے ۔۔۔۔۔(نرس نے تنگ اکر تصبیہا کو بتایا تو تصبیہا نے جہانگیر سے کہا)

ہیلو ۔۔۔۔۔۔(اس نے جہانگیر کہ آگے چوٹکی بجائی ،تو اس نے پلٹ کر دیکھا تو تصبیہا کو اپنے سامنے پایا ۔۔۔۔)

آپ کو سمجھ نہیں آرہا وہ کیا کہہ رہی ہیں آپ سے ۔۔۔۔(تصبیہا نے تھوڑا غصےسے کہاۤ)

میں نے تو ان سے کہا ہے کہ انھیں جو کرنا ہے وہ کرلیں ۔۔۔(جہانگیر نے تصبیہا کو ایسے کہا جیسے کوئی بچہ کسی کی شکایت لگا رہا ہو)

جہانگیر کی بات سن کر تصبیہا نے نرس کی طرف دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے پوچھا تو وہ بولی )

میم مجھے ان کی ای سی جی کرنی ہے ۔۔۔۔۔۔(وہ آگے بولتی کہ تصبیہا نے اسے روک دیا اور جہانگیر سے بولی )

آپ اٹھیں اور آیئے میرے ساتھ ۔۔۔۔(جہانگیر نے اسے ایسے دیکھا کہ کہہ رہا ہو کہ مجھے نہیں جانا۔۔۔۔تصبیہا نے نرم لہجے میں کہا)

دیکھیے ۔۔۔۔ انھیں کچھ نہیں ہوگا ممیں آپ سے کہہ رہی ہوں بس کچھ دیر کی ہی بات ہے پھر آپ ان کہ پاس آجاہیے گا ۔۔۔(تصبیہا نے نرمی سے کہا تو جہاگیر نے پہلے اپنی دادی کا ہاتھ چوما اور اٹھ کر تصبیہا کہ ساتھ باہر نکل گیا۔۔۔۔۔وہ باہر آئے تو تصبیہا نے اس سے پوچھا )

وہ کون ہیں اپ کی ؟؟؟؟

میری دادو ہیں وہ۔۔۔۔

کیا ہوا ہے انھیں ۔۔(اس نے اگلا سال کیا)

کل رات ان کی طبیت اچانک خراب ہوگئی تھی تو میں انھیں یہاں لے آیا۔۔۔۔

انشااللہ وہ ٹھیک ہوجاہیں گی پریشان نہیں ہوں ۔۔۔۔۔(تصبیہا نے مسکرا کر کہا تو ایک منٹ کہ لیے تو جہانگیر کا دل کیا کہ اس کہ چہرے سے نظریں ہی نا ہٹائے۔۔۔۔)

اتنے میں نرس بھی باہر آگئی ۔تصبیہا بولی)

لیں ہوگیا کام ۔۔آپ ایسے ہی گھبرا رہے تھے ۔جایئے اب اندر ۔۔۔۔(اس نے کہا اور وہاں سے چلی گئی ۔مگر جہانگیر کا دل چارہا تھا کہ اسے وہیں روک لے ۔مگر وہ جاچکی تھی۔۔وہ سر جھٹک کر اندر چلاگیا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یار میری بات تو سنو ۔۔۔نور۔۔۔۔نورررر ہیلو۔۔۔۔(شاہ موبائل کان سے لگائے کسی سے بات کررہا تھا جب سعد نے اس کہ کندھے پر ہاتھ رکھا تو اسنے موبائل بند کردیا کیونکہ کال تو ویسے ہی کٹ گئی تھی)

میرے آتے ہی کال دیسکنیکٹ کردی ۔۔۔(سعد نے اسے اڑے ہاتھوں لیا)

نہیں نہیں وہ کال ہہی کٹ گئی تھی ۔۔(شاہ نے اپنی صفائی دی )

اچھا تو نور نے بات نہیں کی ۔۔۔(سعد نے نور کا نام لیا تو شاہ شوکڈ رہ گیا ک اسے کیسے پتا چلا)

تمھیں کیسے پتا نور کا ؟؟؟؟

بیٹا ہم اڑتی چڑیا کہ پر گن لیتے ہیں ۔۔۔۔(سعد اپنا کالر ٹھیک کرتے ہوئے کہا)

اچھا کیا پتا ہے تمھیں ؟ (شاہ نے اس سے جاننا چاہا کہ وہ کیا جانتا ہے )

وہ میں بتا ہی دوں گا پلے تو بتا کہ یہ کب سے چل رہا ہے اورررررر موصب کو پتا ہے اس سب کہ بارے میں ؟؟؟؟؟؟؟(سعد نے انکھیں چھوٹی کرکہ اس سے پوچھا تو شاہ بولا)

تو اپنا منہ بند رکھے گا تو نہیں پتا چلے گا ۔۔(شاہ نے برا سا منہ بناکر کہا تو سعد نے ہنسنے لگا )

ہنس لے بیٹا تیرا بھی وقت آئے گا تب پوچھوگا تجھ سے ( شاہ اسے ایک مکا مار )

اچھا بتا مسلہ کیا ہے ۔ہوسکتا ہے میں کچھ مدد کردوں (سعد نے اپنی ہنسی روکھتے پوئے کہا)

نہیں میں کر لوں گا خود ہی کچھ نا کچھ ( شاہ نے برا سا منہ بناکر کہا )


چل ٹھیک ہے جیسی تیری مرضی ۔۔۔مگر کوئی ہیلپ چاہیے ہو تو بتانا ۔۔۔(اس نے کہا تو شاہ بے دلی سے مسکرایا اور اٹھ کر 

       چلا گیا )

کیا ہوا ہے اتنی خاموش کیوں ہو؟(تصبیہا نے فائزہ سے پوچھا جو خاموش بیٹھی تھی )


میں کچھ سوچ رہی ہوں ۔۔(فائزہ نے اسے بتایا )

ہیں سچی تم یہ کام بھی کرتی ہو۔۔۔۔(تصبیہا نے ہستے ہوئے کہا)

میں سنجیدہ ہوں ۔۔۔(فائزہ بولی)

اچھا بتاو ہوا کیا ہے کیا سوچا جارہا ہے ۔؟(تصبیہا نے سنجیدگی سے کہا)

یار فیروز کا برتھ ڈے ہے کل میں سوچ رہی تھی کہ کیوں نا اسے سرپرائز دیں ۔۔۔(فائزہ نے تصبیہا سے رائے چاہی)

آئیڈیا تو اچھا ،تیاری شروع کرو ۔کیا کرنا ہے مجھے بتاو ۔۔۔

فارم ہاوس میں ارینجمیڈ کرلیتے ہیں ۔۔۔

کس کہ فارم ہاوس میں؟؟/

موصب کہ۔۔۔۔

(اس کا فارم ہاوس بھی ہے ۔۔۔۔تصبیہا نے دل میں سوچا)

ہاں تو تم موصب سے بات کرلو۔۔(تصبیہا نے کہا۔کیونکہ اسے پتا تھا وہ بولے گی تو وہ کبھی اجازت نہیں دے گا)

ہاں میں موصب سے بات کرتی ہوں ۔۔(وہ یہ کہہ کر موصب کو ڈھونڈنے بھاگی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا حال ہے دوست ؟ (تصبیہا حسن کہ روم میں آئی تھی اس سے ملنے ۔اتفاق سے موصب وہی تھا ۔اس کی رپورٹس چیک کررہا تھا ۔۔۔۔)

میں تم سے ناراض ہوں ۔۔۔(حسن نے منہ بنارکر کہا)

ہیں وہ کیوں ؟؟؟(تصبیہا کی سمجھ نہیں آیا کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہا ہے)

تم نے کہا تھا کہ ہم کل مووی دیکھیں گے ۔۔۔(اس نے تصبیہا کو یاد دیلایا)

(تصبیہا نے اپنے دانتوں تلے زبان کی ۔۔۔کیونکہ وہ واقع بھول گئی تھی۔۔۔۔موصب نے تصبیہا کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔کہ مووی کیسے دیکھاوں اسے ۔۔۔وہ سمجھ گیا اور بولا )

میرے آفس میں جاو وہاں لیپ ٹوپ ہوگا وہ لے کر آو۔۔۔۔۔

(تصبیہا گئی اور لیپ ٹوپ لے کر آئی ۔۔موصب نے پاسورڈ کھولا اور تصبیہا کو دے دیا )

تصبیہا حسن کہ برابر میں بیٹھ گئی اور وہ دونوں مووی دیکھنے لگے ۔۔۔موصب وہاں سے چلا گیا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تصبیہا تم بھی چلو نا میرے ساتھ ۔یہاں قریب میں ہی تو ہے مول ۔۔۔(فائزہ نے اس سے ضد کی)

یار میں کیسے جاسکتی ہوں موصب سر اجازت نہیں دیں گے۔۔۔(اس نے اپنی مشکل بتائی )

تم ایک دفعہ پوچھ کر تو دیکھو۔۔۔۔(فائزہ نے اسے فورس کیا)

اچھا دیکھتی ہوں ۔۔۔۔۔(اسے پتا تھا اجازت تو ملنی نہیں ہے پھر بھی کوشیش کرکہ دیکھ لیتی ہوں )

(وہ بنا دستک کہ ہی اس کہ کیبن میں گئی جیسا وہ ہمیشہ کرتی تھی۔موصب نے اسے دیکھا اور ایک لمبی سانس لی پھر نفی میں سر ہلا کر فائل دیکھنے لگا)

مجھے تمہیں کچھ بتاناتھا ۔۔۔

کیا؟

وہ ۔۔۔فائزہ مجھے اپنے ساتھ مول جانے کا کہہ رہی ہے ۔ میں جاوں ؟

اسے بتانا نہیں اجازت لینا کہتے ہیں ۔۔(موصب نے اس کی تصیی کی )

تم سمجھ گئے نا کافی ہے ۔۔۔مہں جاوں ؟؟؟؟(تصبیہا نے چڑتے ہوئے کہا تو موصب نے اسے دیکھا پھر بولا )

کرنا کیا ہے وہاں جاکر تم نے ؟

وہ فیروز کا برتھ ڈے ہے نا اس کی تیاری کے لیے ۔۔(تصبیہا نے سچ سچ بتادیا)

تھیک ہے جاو۔۔۔ (تصبیہا کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس نے اجازت دے دی ۔وہ موصب کو حیرانگی سے دیکھ رہی تھی ۔اس نظر جب اپنے اوپر محسوس ہوئی تو موصب نے فائل سے نظریں گھوما کر اسے دیکھا تو وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی)

اب کیا ہوا؟ ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟؟

مجھے یقین نہیں آرہا کی تم نے مجھے جانے کی اجازت دی ہے۔۔۔(اس نے دل کی بات بول دی ۔وہ ایسے ہی تھی جو بات اس کے دل میں ہوتی وہی زبان پر۔۔۔۔)

موصب نے اسے صرف گھورا جس پر وہ چپ کر کہ باہر نکل گئی۔)

   1
0 Comments